شام کے منظرنامے میں بشار الاسد کا اقتدار: ایک اہم موڑ
شام کی جنگ میں اہم موڑ اُس وقت آیا جب باغی گروپوں نے دمشق میں بشار الاسد کی حکومت کے اقتدار کو چیلنج کیا۔ یہ تبدیلی نہ صرف شام کے اندرونی معاملات کو متاثر کرنے والی تھی بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے۔ اس آرٹیکل میں ہم شام کی سیاست، بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے، اور اس کے بعد کے اہم سیاسی و فوجی منظرنامے پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔
بشار الاسد کی حکومت کا آغاز اور شام میں سیاسی بے چینی
بشار الاسد 2000 میں اپنے والد حافظ الاسد کی وفات کے بعد شام کے صدر بنے۔ انہوں نے اپنے ابتدائی برسوں میں اصلاحات کا وعدہ کیا تھا، مگر ان اصلاحات کی نوعیت زیادہ تر نمائشی تھی اور حقیقی سیاسی آزادی اور جمہوری عمل کو بڑھاوا نہیں دیا گیا۔ 2011 میں جب عرب بہار کی لہر نے مشرق وسطی کو اپنی گرفت میں لیا، شام میں بھی حکومت کے خلاف عوامی احتجاج کا آغاز ہوا۔ ابتدا میں یہ احتجاج پرامن تھے، لیکن جب حکومتی افواج نے تشدد کا راستہ اپنایا، یہ احتجاجی تحریک ایک مسلح انقلاب میں تبدیل ہو گئی۔
دمشق میں باغی گروپوں کی طاقت کا بڑھنا
باغیوں کی مختلف جماعتیں، جیسے فری سیرین آرمی (FSA) اور دیگر اسلام پسند گروہ، نے بشار الاسد کی حکومت کے خلاف جنگ شروع کی۔ یہ جنگ ابتدائی طور پر ایک مقامی مزاحمت تھی، لیکن جلد ہی اس میں بین الاقوامی طاقتیں بھی شامل ہو گئیں۔ مغربی ممالک، سعودی عرب اور ترکی نے باغیوں کی حمایت کی، جبکہ روس اور ایران نے بشار الاسد کی حکومت کا ساتھ دیا۔ اس تنازعے نے پورے خطے میں سیاسی تبدیلیاں اور غیر معمولی اثرات مرتب کیے۔
بشار الاسد کی حکومتی پوزیشن اور عالمی ردعمل
بشار الاسد کی حکومت نے عالمی سطح پر کئی چیلنجز کا سامنا کیا۔ جہاں ایک طرف امریکہ اور یورپی یونین نے ان کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کیں، وہیں روس اور ایران نے شامی حکومت کی حمایت کی۔ روس نے اپنے فوجی طیاروں کے ذریعے شامی افواج کو فضائی مدد فراہم کی، اور ایران نے اپنی ملیشیا کو شام میں بھیجا تاکہ بشار الاسد کی حکومت کو بچایا جا سکے۔
شام کے اندر، بشار الاسد کے مخالفین نے اسے ایک ظالم حکمران کے طور پر پیش کیا، جو اپنے شہریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرنے میں بھی پیچھے نہیں ہٹا۔ اس کے باوجود، بشار الاسد نے اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانے کی پوری کوشش کی اور شامی عوام کو یہ باور کرایا کہ ان کی حکومت ہی ملک کی استحکام کی ضمانت ہے۔
شام میں فوجی تنازعے کا عروج
2013 میں کیمیائی حملے اور 2014 میں داعش کی موجودگی کے باعث جنگ کی شدت میں مزید اضافہ ہوا۔ داعش نے عراق اور شام کے وسیع حصے پر قبضہ کر لیا تھا، اور ان کی موجودگی نے عالمی سطح پر تنازعے کی نوعیت بدل دی۔ عالمی طاقتوں نے داعش کے خلاف کارروائی کے لیے فوجی مداخلت کی، جس کا شام کے داخلی مسائل پر گہرا اثر پڑا۔
بشار الاسد کا اقتدار: ایک نیا سیاسی منظرنامہ
2018 میں بشار الاسد کی حکومت نے اکثر علاقوں میں باغیوں کو شکست دے کر اپنی پوزیشن مستحکم کر لی۔ تاہم، یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ باغیوں نے ملک کے کچھ حصوں میں مزاحمت جاری رکھی، اور شامی عوام کی حالت زار بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ عالمی سطح پر، بشار الاسد کو ایک ظالم حکمران کے طور پر دیکھا گیا، لیکن ان کی حکومت کی کامیابی یہ تھی کہ انہوں نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے اپنے اقتدار کو برقرار رکھا۔
شام کے مستقبل کی پیش گوئیاں
بشار الاسد کے اقتدار کا مستقبل ابھی تک غیر یقینی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ان کی حکومت کو جواز دینے والی قوتوں کی کمی نہیں ہے، لیکن شام کے اندر عوام کی رائے اور عالمی طاقتوں کے اثرات اس کے مستقبل کی سمت کا تعین کریں گے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بشار الاسد کا اقتدار وقتی طور پر تو قائم رہ سکتا ہے، لیکن شام کی داخلی سیاست میں مزید تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔
نتیجہ
شام کی موجودہ صورتحال عالمی سیاست میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ بشار الاسد کے اقتدار میں تبدیلی یا ان کے حکومت کا خاتمہ شام کے داخلی اور عالمی سطح پر جیوپولیٹیکل منظرنامے پر گہرے اثرات ڈالے گا۔ اس تنازعے نے نہ صرف مشرق وسطی کی سیاست کو متاثر کیا بلکہ عالمی طاقتوں کے درمیان طاقت کے توازن کو بھی چیلنج کیا۔